تنویر ضیاء ایک معصوم بچہ تھا۔ اسے کسی نے ایک دکان سے نکلتے دیکھا جہاں دکاندار موجود نہیں تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک پرفیوم اور گھڑی تھی۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ یہ چیزیں اس کے پاس کیوں ہیں، کسی نے وضاحت کا موقع نہیں دیا۔ بس الزام لگا اور سب کے ذہنوں میں اپنی اپنی دکانوں سے چوری شدہ چیزیں یاد آنے لگیں۔
چند لمحوں میں یہ الزام ایک تماشے میں بدل گیا۔ چھوٹے سے بچے کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ کسی کے ہاتھ میں اس کا گریبان تھا، تو کسی نے اس کی قمیض کا پلو پکڑ رکھا تھا۔ جیسے وہ کوئی خطرناک مجرم ہو۔
جب والد تھانے پہنچے تو وہ ہر الزام لگانے والے کو یقین دلاتے رہے کہ نقصان کا ازالہ کر دیں گے۔ کسی سے ثبوت نہیں مانگا، بس جان چھڑانے کی کوشش کی۔ پولیس کی گرفت سے چھڑوا کر سر جھکائے بیٹے کو لے گئے۔ تماشہ ختم ہوا اور سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ اگلی صبح جب ماں نے ناشتے کے لیے پکارا تو تنویر ناشتہ کرنے کے بجائے گھر سے باہر نکل گیا۔ ماں آوازیں دیتی پیچھے پیچھے آئی، لیکن وہ دریا کے پل پر جا چڑھا۔
تنویر کو شاید محسوس ہو چکا تھا کہ اس کی معصومیت، عزت اور خودداری سب چھین لی گئی ہے۔ اسے اپنی ذات پر لگے داغ دھونے تھے۔ ماں کی چیختی ہوئی آوازوں کے باوجود اس نے پل سے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ آخری لمحے پلٹ کر ماں کو الوداعی ہاتھ ہلایا اور تیز موجوں کے حوالے ہو گیا۔
جب لوگ اس کے بے جان جسم کو تلاش کر رہے تھے، کسی کو یہ خبر نہیں تھی کہ اس کے تکیے کے نیچے ایک پرچی رکھی ہے جس پر لکھا تھا:
“Sorry my sister, I love you.”
یہ کوئی کہانی نہیں، حقیقت ہے۔ تنویر ضیاء کے والد ان سب دکانداروں کے خلاف مقدمہ درج کروا چکے ہیں جو الزام لگانے میں پیش پیش تھے۔ لیکن اب کیا فائدہ؟ ایک معصوم جان تو جا چکی۔
یہ واقعہ ہمیں ایک تلخ سبق دیتا ہے:
ہم الزام لگانے اور سزا دینے میں بہت جلدی کرتے ہیں لیکن سچ جاننے اور کسی کو وضاحت کا موقع دینے میں بہت دیر۔ معاشرے کی یہ جلدبازی کسی معصوم کی زندگی لے سکتی ہے۔
سبق
ہمیں بحیثیت معاشرہ یہ سیکھنا ہوگا کہ الزام لگانا آسان ہے، لیکن ایک انسان کا اعتماد، عزت اور زندگی واپس لانا ناممکن۔ کسی پر بھی چوری، دھوکے یا جرم کا الزام لگانے سے پہلے اس کے حالات، اس کی وضاحت اور اس کا مقام دیکھنا ضروری ہے۔ ورنہ تنویر جیسے بچے ہمیں یاد دلاتے رہیں گے کہ بعض اوقات اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے انسان کو اپنی جان دینی پڑتی ہے۔
0 Comments