بگرام ایئربیس کی اہمیت
افغانستان کا بگرام ایئربیس محض ایک فوجی اڈہ نہیں بلکہ خطے کی طاقتوں کے لیے ایک اسٹریٹجک کارڈ ہے۔ یہ ایئربیس کابل سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور دو دہائیوں تک امریکی افواج کا مرکزی ہیڈکوارٹر رہا۔ یہاں سے امریکہ نے نہ صرف طالبان بلکہ القاعدہ اور داعش کے خلاف بھی آپریشنز کیے۔
ٹرمپ کی دلچسپی کیوں؟
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا کہا کہ افغانستان چھوڑنا ایک "غلطی" تھی، خاص طور پر اس اڈے کو طالبان کے قبضے میں چھوڑ دینا۔ بگرام کی دوبارہ حوالگی کے پیچھے چند بنیادی وجوہات سمجھی جاتی ہیں:
خطے پر نظر: چین، روس، ایران اور پاکستان سبھی امریکہ کے حریف یا مقابل ہیں۔ بگرام ان سب کے قریب ہے، جسے واشنگٹن اسٹریٹجک برتری کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
انسدادِ دہشت گردی: داعش خراسان اور القاعدہ کی موجودگی امریکہ کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ بگرام دوبارہ ملنے پر انسدادِ دہشت گردی آپریشنز آسان ہو جائیں گے۔
فوجی سہولتیں: یہ ایئربیس بڑے فوجی طیاروں، لاجسٹکس اور ریسکیو مشنز کے لیے مثالی ہے۔
طالبان کا مؤقف
طالبان کے لیے بگرام صرف ایک فوجی اڈہ نہیں بلکہ "فتح" کی علامت ہے۔ اس کی دوبارہ حوالگی ان کے لیے اپنی سیاسی اور مذہبی ساکھ کھونے کے مترادف ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان قیادت نے اس امکان کو سختی سے رد کیا ہے۔
تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
کچھ ماہرین کے مطابق طالبان فی الحال امریکہ کو اڈہ واپس دینے پر تیار نہیں، لیکن مستقبل میں معاشی دباؤ، عالمی تنہائی یا کسی بڑے معاہدے کے تحت وہ محدود رسائی دینے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ دوسرے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ طالبان اپنی بقا کے لیے ایسی "قومی فتح" ہرگز نہیں بیچیں گے۔
مستقبل کا منظرنامہ
اگرچہ طالبان نے بگرام کی حوالگی کو ناممکن قرار دیا ہے، مگر عالمی سیاست میں "ناممکن" اکثر وقتی ثابت ہوتا ہے۔ امریکہ اگر دوبارہ بگرام حاصل کرتا ہے تو یہ صرف فوجی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ خطے کی طاقتوں پر دباؤ بڑھانے کا ایک بڑا ہتھیار بھی ہوگا۔
افغانستان کا بگرام ایئربیس محض ایک فوجی اڈہ نہیں بلکہ خطے کی طاقتوں کے لیے ایک اسٹریٹجک کارڈ ہے۔ یہ ایئربیس کابل سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور دو دہائیوں تک امریکی افواج کا مرکزی ہیڈکوارٹر رہا۔ یہاں سے امریکہ نے نہ صرف طالبان بلکہ القاعدہ اور داعش کے خلاف بھی آپریشنز کیے۔
ٹرمپ کی دلچسپی کیوں؟
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا کہا کہ افغانستان چھوڑنا ایک "غلطی" تھی، خاص طور پر اس اڈے کو طالبان کے قبضے میں چھوڑ دینا۔ بگرام کی دوبارہ حوالگی کے پیچھے چند بنیادی وجوہات سمجھی جاتی ہیں:
خطے پر نظر: چین، روس، ایران اور پاکستان سبھی امریکہ کے حریف یا مقابل ہیں۔ بگرام ان سب کے قریب ہے، جسے واشنگٹن اسٹریٹجک برتری کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
انسدادِ دہشت گردی: داعش خراسان اور القاعدہ کی موجودگی امریکہ کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ بگرام دوبارہ ملنے پر انسدادِ دہشت گردی آپریشنز آسان ہو جائیں گے۔
فوجی سہولتیں: یہ ایئربیس بڑے فوجی طیاروں، لاجسٹکس اور ریسکیو مشنز کے لیے مثالی ہے۔
طالبان کا مؤقف
طالبان کے لیے بگرام صرف ایک فوجی اڈہ نہیں بلکہ "فتح" کی علامت ہے۔ اس کی دوبارہ حوالگی ان کے لیے اپنی سیاسی اور مذہبی ساکھ کھونے کے مترادف ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان قیادت نے اس امکان کو سختی سے رد کیا ہے۔
تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
کچھ ماہرین کے مطابق طالبان فی الحال امریکہ کو اڈہ واپس دینے پر تیار نہیں، لیکن مستقبل میں معاشی دباؤ، عالمی تنہائی یا کسی بڑے معاہدے کے تحت وہ محدود رسائی دینے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ دوسرے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ طالبان اپنی بقا کے لیے ایسی "قومی فتح" ہرگز نہیں بیچیں گے۔
مستقبل کا منظرنامہ
اگرچہ طالبان نے بگرام کی حوالگی کو ناممکن قرار دیا ہے، مگر عالمی سیاست میں "ناممکن" اکثر وقتی ثابت ہوتا ہے۔ امریکہ اگر دوبارہ بگرام حاصل کرتا ہے تو یہ صرف فوجی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ خطے کی طاقتوں پر دباؤ بڑھانے کا ایک بڑا ہتھیار بھی ہوگا۔
0 Comments